Ticker

recent/post/

Header Ads Widget

بلدیاتی انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی کیسی رہی ؟

 

صوبے کے دیگر سولہ اضلاع کی طرح ضلع مردان میں بھی19 دسمبر2021ء کو پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابا ت مکمل ہوچکے ہیں این سی اور وی سی سطح سے لے کر تحصیل اورمخصوص نشستوں کا انتخابی عمل پایہ تکمیل کو پہنچ چکاہے اور پانچ تحصیلوں سمیت ضلع بھرکی تمام کونسلیں معرض وجود میں آگئی ہیں مقام شکر ہے کہ انتخابی مرحلہ بخیر وخوبی احتتام پذیر ہوا جس کا کریڈٹ بلاشبہ حکومت،سول انتظامیہ اورپولیس انتظامیہ کو جاتاہے تمام مراحل کے تکمیل کے بعد اب سیاسی پارٹیاں اپنی جیت اور شکست کے عوامل پر سوچ رہی ہیں حالیہ انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کی مجموعی کارکردگی کیسی رہی اورکیا وہ اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب رہی ہیں اگرہم انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹوں پر غورکریں تو ان کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لینا آسا ن ہوجائے گا ان انتخابات میں جے یو آئی نے ضلع کے تمام پانچ تحصیلوں میں مجموعی طورپر ایک لاکھ 62ہزاور 507ووٹ لے کر پہلی پوزیشن،اے این پی 1لاکھ 25ہزار233ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی تحریک انصاف نے 97ہزار333ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی اس طرح جماعت اسلامی نے46ہزار844ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبرپررہی مسلم لیگ نے 43ہزار556ووٹوں کے ساتھ پانچویں نمبر حاصل کی جبکہ پیپلزپارٹی 33ہزار373 ووٹوں کے ساتھ چھٹے نمبرپررہی ووٹوں کے جائزے سے معلوم ہوا کہ سب سے اچھی کاکردگی جے یو آئی(ف) نے دکھائی ہے جو نہ صرف ضلع کے پانچ تحصیلو ں میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے بلکہ تین تحصیل چیئرمینوں کی نشستیں بھی اپنے نام کرلی ہیں بلکہ دوتحصیلوں مردان اور گڑھی کپورہ کی نشستیں بھی وہ جیتے جیتے ہارگئی ہیں جے یو آئی یوں چھا گئی ہے کہ توقع سے زیادہ نشستیں بھی سمیٹیں اور ووٹ بنک بھی بڑھایاہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان انتخابات کے اثرات دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات سمیت عام انتخابات پر بھی اثرانداز ہوں گے جس کے فوائدجے یو آئی سمیٹے گی مستقبل میں جے یو آئی دیگر پارٹیوں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اے این پی کی بات کی جائے تو وہ ووٹوں کے لحاظ سے دوسرے نمبر پررہی ہے اس میں شک نہیں کہ ضلع بھر میں ان کی نائبر اورویلج کونسلوں کی نشستیں کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ ہیں لیکن گذشتہ آٹھ سالوں سے صوبے خصوصاًمردان میں وہ ایک لمحے چین سے نہیں بیٹھی سابق وزیراعلیٰ امیرحیدرخان ہوتی کی براہ راست قیادت میں پارٹی جاندار رہی اورشمولیتوں کے اعتبار سے اس کی ثانی نہیں رہی لیکن نتائج کو دیکھ کر اسے ہر گز حوصلہ افزاء قرارنہیں دیاجاسکتا ایک بڑے سیاسی جماعت کی دعویدار پارٹی سابق وزیراعلیٰ امیرحیدرخان ہوتی جیسی شخصیت کے ہوتے ہوئے یہ نتائج مایوس کن نہیں تواورکیاہے مئیر شپ پر اگرحمایت اللہ مایار جیسے مضبوط امیدوار میدان میں نہ ہوتے تو یہ نشست بھی ان کے

 ہاتھو ں سے نکل جاتی اس سیٹ پر اے این پی کو جو ووٹ ملے ہیں ان میں پارٹی کے ووٹوں کے علاوہ حمایت اللہ مایار کی اپنی ذاتی شخصیت کے کافی ووٹ ہیں نچلے سطح پر پارٹی کے بعض فیصلوں کے منفی اثرات اوربعض جہگوں پر پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزیاں بھی دیکھنے کو ملیں جس کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑا ہے پی ٹی آئی تو مہنگائی،گروپ بندی،بدنظمی اورٹکٹوں میں تاخیر سمیت دیگر عوامل لے ڈوبی این سی،وی سی سطح پر آزاد حیثیت سے امیدوار اتارنے کے فیصلے نے بھی مایوسی دی لیکن تمام تر خامیوں کے باوجود پی ٹی آئی تیسرے نمبر پر رہی اوراس کے امیدواروں نے خوب مقابلہ کیا خصوصاً مئیر شپ کی نشست پر لخکرخان نے بالا وجوہات کے باوجود کافی ووٹ سمیٹے اگران کی جماعت کے امیدوار کلیم اللہ طوروآزاد حیثیت سے نہ آتے اوردیگر عوامل پر بروقت قابو پالیا جاتا تووہ حیران کن نتائج دے سکتے تھے پی ٹی آئی اگر اپنے اندورنی اختلافات اور عوامی پذایزئی پر مبنی فیصلے کریں تو شنید ہے کہ اپوزیشن کے لئے اس سے اقتدار چھیننا آسان نہیں ہوگا جماعت اسلامی کے ارباب حل وعقد نے انتخابات سے جو توقعات وابستہ کررکھی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں اوران کے جھولی میں کوئی ثمر نہیں پڑا البتہ ماضی بعید اور قریب کے انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں سے اس دفعہ جماعت کو زیادہ ووٹ پڑے ہیں اورووٹوں میں وہ مسلم لیگ اور پی پی سے آگے نکل گئی ہے جس پر”جماعت“شادماں ہے گوکہ جماعت اسلامی مردان مئیر شپ سمیت تخت بھائی کی چیئرمین شپ کی کامیابی کے لئے پرامید تھی لیکن نظم وضبط اورکمال کی سیاسی بیداری کے باوجود انہیں کوئی خوشخبری نہیں ملی البتہ جماعت اسلامی کی انتخابی مہم بہت بہتر اورہر لحاظ سے جاندار تھی جماعت اسلامی نے ایک ضبط اور ترتیب کے ساتھ اپنے امیدوار وں خاص طورپر مردان مئیرکے امیدوارکی کامیابی کے لئے بھرپور مہم چلائی جو ہر جگہ نظر بھی آئی او رمحسوس بھی ہوئی الیکشن کے دن ان کے ورکرز نہ صرف پولنگ سٹیشنوں پرسارادن موجود ررہے بلکہ نتائج کے حصول تک چین سے نہیں بیٹھے پیپلز پارٹی کی مجموعی کارکردگی مایوس کن رہی ماضی کی منی لاڑکانہ میں پی پی نے کوئی خاطر خواہ سکورنہیں کیااگریہ کہاجائے کہ پارٹی کا کوئی ولی وارث نظر نہیں آیا تو بے جان نہیں ہوگا پولنگ سٹیشنوں میں ان کے ایجنٹ تک موجود نہیں تھے مردان مئیر شپ کے امیدوار اسدعلی کشمیری نے ذاتی مسائل اور مشکلات کے باوجود خوب مقابلہ کیا اوراکیلے سر عوامی پذایرائی حاصل کی مسلم لیگ ن جو پہلے ہی سے تنظیمی مشکلات سے دوچار رہی نے میدان میں اترکر بڑا کارنامہ انجام تو دیا لیکن پارٹی کے ضلعی صدر سید عنایت باچہ جو مئیر کے امیدواوتھے نے وہ مہم نہیں چلائی جو جیت کے لئے ضروری ہوتی ہے اور حصہ بقدرجثہ کے مصداق ان کی جماعت کو ووٹ ضرور ملے ہیں لیکن پارٹی کی رفتا رکو دیکھ کرکہاجاسکتاہے کہ دلی دوراست،بلدیاتی انتخابات سیاسی جماعتوں کے لئے امتحان سے کم نہ تھے جس نے جو بویاتھا وہی کاٹا اب وقت ہے کہ سیاسی پارٹیاں ان انتخابات میں ہونے والی غلطیوں اورکوتاہیوں سے سبق سیکھنے کے ساتھ ساتھ تنظیمی خامیوں کو دور کرنے اور عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کریں۔۔۔۔ایم بشیر عادل


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے