پروفیسر جمیل احمد کھٹانہ
ایک با ر لار شریف سری نگر میں عرس میں تشریف لے گئے بابا جی صاحب لاروی آپ سے باپناہ محبت رکھتے تھے عرس میں رش اور عقیدیت مندوں میں بابا جی صاحب گرِ ے ہوئے تھے دوسر ے روز آپ نے جب بابا جی صاحب سے اجازت چاہی تو بابا جی صاحب نے فرمایا ’’ذبیح آپ نے رات بڑی تنگی میں گزاری ہے رش کم ہو گیا ہے آپ ابھی قیام کریں ساتھ ہی ملازم ہو بلایا اور اسے حکم دیا کہ ذبیح صاحب کے کپڑے صاف کر کے اور استری کر کے لاؤ ‘‘اس واقعہ سے آپ کی عزت و احترام کا اظہار اور قدر دانی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔
آپ کے خصوصی تعلقات چوہدری حسن دین حسن آف پنچ ، بھیا عبد الکریم ، خواجہ شریف مرخوم بدھل والوں سے تھے اس وقت کی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کو مضبوط بنانے میں دن رات کیا آپ چوہدری غلام عباس کے دست راس تھے اس کے علاوہ چوہدری اللہ رکھا ساغر ، راجہ حیدر خان اور دیگر سیاسی راہنماؤں سے خاص تعلقات تھے ۔1947میں جب انقلاب آزادی کا آغاز ہو ا تو آپ نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس سلسلہ میں آپ نے کئی بار راولپنڈی کا رخ کیا اور اسلحہ محاذ جنگ تک پہنچایا ریاست کے مشہور مصنف اور وکیل مرحوم چوہدری محمد شریف ایڈووکیٹ اپنی کتاب جموں کشمیر کی تحریک آزادی کی کہانی تاریخ کی زبانی میں رقم طراز ہیں ۔
بدھل ایریا (راجوری) میں تحریک
راجوری بدھل ایریا میں علاقہ گلاب گڑھ کے ایڈمنسٹر یٹر چوہدری علی محمد تھے ان کے ساتھ مولوی محمد اسمعیل ذبیح مرحوم (حال ایبٹ آباد ) نے اس علاقے میں انتظامی کمیٹیاں تیار کی گئیں ۔انتظامی کمیٹیاں تیار کرنے میں سردار جلال الدین آف کنڈی نے بھی مدد کی ان انتظامی کمیٹیوں کے صدر اسماعیل ذبیح تھے چنانچہ 1948میں جب کے جنگ آزاد ی جاری تھی اور مولانا محمد اسماعیل ذبیح ،خواجہ محمد شریف ، بدھلوی کالا خان برادرز سردار اسلام الدین بودھلہ کو ساتھے رکھ کر ذبیح صاحب راولپنڈی آئے ۔ یہاں پر آکر جنرل افتخار ، جنرل طارق اور جنرل اکبر سے ملے اور علاقے کی صورت حال بتائی چنانچہ اس علاقے کے 500رائفلیں پہنچائی مگر وہ صیحح لوگوں تک نہ پہنچ سکی جس میں محمد اسماعیل مہجور راجوروی اور مولوی محمد اسٰحق نایب صوبیدار تھے اس بٹالین کو مثالی طور پر چلایا گیا اور بعد میں اس کی کمان راجہ محمد افراسیاب کو دے دی گئی ۔پھر کیپٹن جمال الدین آف کوٹلی مرحوم اور پھر کیپٹن سیف علی اور پھر کیپٹن نتھا خان کٹاریہ نے بڑی بہک کے مقام پر راجوری اور پونچھ کے درمیانی ایریا میں کمان سنبھالی ۔کیپٹن نتھا خان نے وہاں پر حیدری بٹالین بنانے کی تحریک کی اور بنائی چوہدری علی محمد کو ایڈمنسٹر یٹر مقرر کیا گیا ۔اسماعیل ذبیح صاحب سیالکوٹ میں چوہدری غلام عباس سے بھی ملے محمد اسماعیل ذبیح کو انہوں نے مبلغ اسلام کا خطاب دیا جنگ آزاد ی کو جاری رکھنے کے لیے شاید راجوری میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں رئیس اعظم مینڈ ھر چوہدری غلام حسین لسانوی ، علی محمد ذیلدار ، لعل بھٹی مینڈر والے ، محمد اسماعیل سردار جلال الدین آف کنڈی کیپٹن نتھا خان ، چوہدری فضل دین اف چھونگا ں بھی شامل تھے اس میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان کے پاس جاکر مزید امداد حاصل کی جائے ذبیح صاحب سردار ابراہیم صدر آزاد کشمیر اور چوہدری غلام عباس سے ملے پھر اکھنور سے چوہدری دیوان علی بھی راجوری آگئے راجوری میں جاکر چوہدری دیوان علی نے اپنے لوگوں کو جنگ کے لیے منظم کیا ڈوگرہ فوج نے سلا ل پل پر بکروالوں کے چودہ سے کنبے جن کی تعداد 6000کے لگ بھگ کو قتل کر دیا اور ہندؤ جتھے بھی اس قتل میں شامل تھے کچھ عورتوں نے دریا میں چھلانگیں لگا دیں ۔بکروالوں نے نہتے ہوئے بھی ڈوگرہ جتھوں کا مقابلہ کیا جن میں ہندوں جتھوں کے لوگوں کو بھی نقصان پہنچا نہتے بکروالوں نے ڈوگرہ آرمی جو مسلح تھی سے کیا مقابلہ کرتے بہت کم بکروال بچ کر آئے اس کے علاوہ راجوری بدھل کے علاقے میں چوہدری میراں بخش آف کنڈی ، حسین بخش نمبر داربدھل قاضی ولی محمد ، چوہدری سخی محمد پتلی کنڈی چوہدری سلا م الدین نے تحریک آزادی میں اہم کراد ر ادا کیا ۔
جون 1947ء میں ریاست کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر آپ اپنا وفد لے کر آزاد کشمیر و پاکستان آئے۔ تاکہ اہل علاقہ کو تحفظ دیا جا سکے۔ اس وقت تک غاصب بھارت ،نوشہر ہ راجوری اور پونچھ شہر پر قابض ہو چکا تھا۔ جبکہ تمام دیہات اور مضافات اور مشرق کی طرف سے دریائے چناب سے ملحقہ علاقہ آزاد تھا۔ اور آزاد فوج کے فوجی چناب سے مغرب کی طرف رام بن نامی مقام پر متعین تھے۔ چنانچہ وفد کے لیے علاقہ کے عوام نے مولانا اسماعیل ذبیح اور خواجہ محمد شریف کو منتخب کیا۔ مولانا ذبیح بدھل سے خواجہ محمد شریف کے ہمراہ مینڈھل ،ہجیرہ، اور پلندری سے ہوتے ہوئے راولپنڈی پہنچے اور آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے ارباب اختیار قاعد کشمیر چوہدری غلام عباس خان ،سردار محمد ابراہیم میر واعظ مولانا یوسف شاہ بریگیڈیئر حبیب الرحمٰن ،میجر جنرل افتحار، اور جنرل اکبر خان سے ملے۔
ریئس اعظم مینڈھر چودھری غلام حسین لاثانوی بھی اس وقت راولپنڈی میں تھے۔ وہ بھی اس وفد سے ملے ۔ان کے ہمراہ مولوی مہر دین قمر راجوروی اور مولوی لال بھٹی بھی تھے۔ ارباب اختیار کی یہاں یقین دہانیوں اور تحفظ فراہم کرنے کے وعدوں کے بعد ہدایات لے کر تمام تر راستہ پیدل طے کرنے کے بعد آپ بدھل واپس جا پہنچے۔ اور چودھری علی محمد ایڈمنسٹریٹر علاقہ کے ہمراہ امن اور تحریک آزادی کو منظم کرنے میں سر گرم ہوگئے۔
جب حالات زیادہ خراب ہوگئے تو شاہ درہ راجوری میں ایک اجلاس بلایا گیا۔ تا کہ تحریک آزادی کو منظم اور مربوط طریقے سے چلایا جا کسے۔ شاہدرہ کے اجلاس میں کیپٹن نتھا خان شیر جنگ آف سہنسہ ضلع کوٹلی جو اس علاقے کی فوجی کمان کر رہے تھے وہ بھیشریک ہوئے اس کے علاوہ چودھرے غلام حسین لاثانوی اور فضل دین آف چھونگاں مینڈھر کچھ دوسرے افراد بھی شریک ہوئے۔
ڈوگرہ مہاراجہ کی پسپائی کے بعد جب بھارتی غاصب نے ریاست پر قبضہ کرنا شروع کیا تو اور وہ بدھل میں داخل ہو ئی تو آپ نے اپنے رفقاء اور اہل علاقہ جو تقریبا تیس سے پینتس ہزار افراد پر مشتمل تھے یہ واقعہ 14نومبر 1948ء کا ہے۔ ہزاروں افراد پر مشتمل قافلہ بلند پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ اسی دوران برف باری شروع ہوگئی۔ چناچہ شکر مرگ اور کافر کٹھا سے اوپر پہاڑ کی چوٹی عبور کرتے ہوئے سردی اور برف باری کی وجہ سے قافلہ کے کئی کمزور ضعیف اور بیمار لوگ اپنا سفر جاری نہ رکھ سکے اور وہیں برف میں دب گئے۔ ان کی نعشوں کا پتہ آئندہ سال وہاں کے مسلمانوں کو چلا جب وہاں سے برف پگھلی اور انہوں نے ان کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ آپ کا قافلہ پونچھ سے ہوتا ہوا ناڑ منڈی کی طرف سے آزاد کشمیر کی طرف بڑھامگر قافلے کا پچھلا حصہ بارڈ لائن کے قریب پہنچا تو دشمن کی فوجیں درمیان میں حائل ہوگئیں۔ مولانا ذبیح بھی اپنے عزیزو اقارب سمیت محاصرے میں آگئے۔ اور پھر ہاڑی مڑوٹ کے جنگل کے دامن میں ایک مکان میں موسم سرما گزارا۔ اس کے بعد جنگ بندی ہوگئی۔
آپ اپنے اہل و عیال کو لے کر ہاڑی مڑوٹ سے مینڈھر چلے آئے۔ مینڈھر میں رام لعل نامی تحصیلدار سول ایڈمنسٹریٹر تھا۔ اس نے وہاں کی امن کمیٹیوں کے فیصلہ جات کرانے کے لیے ذبیح صاحب کو نگران مقرر کیا۔ اس وقت چودھری فیض حسین آف گڑسائی ا ن کمیٹیوں کے صدر تھے۔ بالآخر 3مئی 1949ء کو مولانا ذبیح اپنے بھائی اسرائیل مہجور اور متعلقین کے عیال سمیت مینڈھر سے براستہ سونا گلی سٹالی چیڑھ آزاد کشمیر میں داخل ہوگئے۔ وہاں سے 16مئی 1949ء کو میرپور پہنچ آئے۔
ہجرت کے بعد کوٹلی ، سرائے عالمگیر ، اورنگ آباد، مری اور اس کے بعد نواں شہر ایبٹ آباد میں قیام کیا آپ کو کئی جگہوں پر زمین الاٹ کرنے پیش کش کی لیکن آپ نے اس یقین کے ساتھ یہ پیش کش رد کر دی کی جلد یا بدیر امن ہو جائے گا اور ہم وطن کو واپس چلے جائیں گے ۔
بدھل میں آپ کی زمین و جائیداد اور مکان اسی طرح ہے البتہ مکین کوئی اور ہے آپ نہایت دلیر ثابت قدم انسان تھے آپ کہا کرتے تھے کہ خوف صرف خدا کی ذات کا ہونا چاہیے کسی سے ڈر کر خوف ذدہ ہو کر زندگی نہیں گزارانی چاہیےے غریب پرور تھے آپ کہا کرتے تھے ان لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے آپ زندگی میں جہد مسلسل پر یقین رکھتے تھے ۔
پاکستان پہنچنے کے بعد آپ اپنی جماعت مسلم کانفرنس کی تنظیم اور مہاجرین کے مسائل حل کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اور ضلع ہزارہ میں مسلم کانفرنس ہزارہ، ممبر مرکزی مجلس عاملہ ،چیئر مین مذہبی امور، ممبر ضلعی رفیوجی کونسل، کنوینر کے ایل ایم ہزارہ کی حیثیت سے خدمات بجا لاتے رہے۔
جون 1959میں جب کے ایل ایم کی تحریک کا آغاز ہوا تو آپ مرکزی راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے آپکو کے ایل ایم کی تحریک کے دوران کمانڈر نمبر 7 مقرر کیا گیا۔ آپ اپنے جیش کو لے کر جنگ بندی لائن توڑنے کے لیے چناری(مظفر آباد) پہنچے۔ یہاں پر پولیس نے نہتے افرادپر تشدد کیا اور ان کو گرفتار کر کے گڑھی حبیب اللہ لا کر چھوڑ دیا۔
دوبارہ مرکزی کمان کی طرف سے حکم ملنے پر اپنے جتھے کو لے کر چکار پہنچے ۔جہاں سے آپ چناری جانا چاہتے تھے۔ پولیس نے سیفٹی ایکٹ کے تحت آپ کو گرفتار کرنے کے بعد کوہالہ سے پاکستان کی حدود میں لا کر چھوڑ دیا۔ اور تین ماہ کے لیے آزاد کشمیر میں داخلہ ممنوع قرار دیا۔ آپ نے اس آرڈر کی پرواہ نہ کی اور دوبارہ مہاجرین کو اکٹھا کیا ۔سید حیدر شاہ۔ غالب سمیت بسوں پر سوار ہو کر کوہالہ پہنچے تو آپ کو دوبارہ سید حیدر شاہ کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد راولپنڈی سینٹرل جیل میں پہنچا دیا گیا۔ جہاں پر چودھری غلام عباس خان، سردار عبد القیوم خان، کے ایچ خورشید، اور جماعت کے کئی دوسرے راہنما موجود تھے ۔ اور ایوب خان کے اقتدار سنبھالنے پر رہائی ملی مہاجرین کی آباد کاری کے لیے چوہدری غلام عباس خان پنجاب اور سرخد کے وزرائے اعلی جس کمیٹی کے ممبر تھے آپ بھی اس میں شامل تھے آپ نے اس وقت کے وزیر اعظم حسین شہید سہر وردی سے ملاقات کی اور مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلہ میں مشکلات سے آگاہ کیا ۔
ایک بار آپ شدید علیل تھے آنکھوں میں سوزش بھی تھی پھر بھی آپ نے کھڑے ہو کر راولپنڈی سے جہلم تک بس میں سفر کیا اور گوجرنوالہ پہنچے جہاں پر مسلم کانفرنس کا سالانہ اجلاس منعقدہو رہا تھا چوہدری غلام عباس مرحوم نے آپ کی حالت دیکھ کر کہا ’’ اس جماعت کو کوئی شکست نہیں دے سکتا جس میں مولاناذبیح جیسے کارکن شامل ہوں یہ جماعت کا سرمایہ ہیں ‘‘
اس کے علاوہ آپ نے ایبٹ آباد کی مقامی سیاست میں بھر پور حصہ لیا وہاں پر آپ نے گجر ویلفےئر ایسویشن کی تشکیل کی سردار فخر عالم سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ صدر اور آپ جنرل سیکرٹری تھی آپ نے عوامی فلاح و بہود کے کام کابھی آغاز کیا اور محب وطن افراد کی زمینوں کی چھن جانے اور ان کو انگریز سامراج کے پٹھوں کودئیے جائے کے بعد کاشت کار قرار دئیے گئے آپ نے سابق ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدا لحکیم کے ساتھ مل کر افراد کو حقوق مالکیت دلانے کے لیے ایبٹ آباد مانسہرہ بٹ گرام میں کسان عوامی محاذ بنایا ۔اور کےئی بار شیخ رشید آئی یو خان ، مفتی محمود، وزیر اعلیٰ سرحد، اور دیگر متعلقہ افسران سے ملے اور کسانوں کے بے دخلیاں روکنے اور ان کے مسائیل اور مشکلات حل کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ مسائل اور مطالبات پر مشتمل پمفلٹ چھپوائے اور وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ سرحد، وزراء اور ممبران اسمبلی تک وہ پمفلٹ پہنچوائے اس طرح حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالحکیم کو تحقیقات کے لیے مقرر کیا۔ آپ نے وفد کی قیادت کی اور جسٹس صاحب سے ملاقات کی ۔آپ کے ہمراہ مولانا عبدالحکیم بھی تھے۔ ا س طرح عوام کو جا گیر داروں کی ظلم و ستم سے نجات ملی اور بیگار کا خاتمہ ہوا۔آپ نے ہزارہ میں جمیعت علمائے اسلام کے لیے اور ملک میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے لیے بھی شب و روز خدمات سر انجام دیں۔ آپ کے دوست احباب جس میں مسلم لیگ (قیوم گروپ ) جمیت علمائے اسلام (ہزاروی گروپ ) نے آپ کو 1970کے انتخابات میں PF:13ہزرا سے انتخابات میں کھڑا کیا اگرچہ آپ کامیاب تو نہ ہو سکے لیکن کافی تعداد میں ووٹ حاصل کیے آپ کے
مد مقابل مذمل شاہ نے دھونس دھاندلی کے ہتھکنڈے استعمال کیا عوامی فلاح و بہبود ، دین سے وابستگی اس کی ترویج اشاعت کے علاوہ آپ نے گوجری زبان کو ریڈیو سے نشر کروانے کے لیے کافی جدو جہد کی 1947سے یہ احساس درد مند دل افراد میں تھا زبان کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے جدو جہد کی جانے چاہیے ۔زبان و ثقا فت کا تحفظ تاریخ و ثقافت کا تخفظ ہے ۔پھر گوجری اس سے کیوں محروم ہے یہ لسانی سے زیادہ عزت نفس کا معاملہ بھی تھا ۔1964میں سروری کسانہ نے جموں سے شائع ہونے والے اپنے سہ ماہی ’گجر دیس ‘ میں گوجری کی ترویج و با اشاعت کی کوشش کی تھی اس کے علاوہ آپ نے مادری زبان کی بہتری کے لیے ’ادارہ ادبیات گوجری قائم کیا آپ کے ہمراہ پروفیسر ڈاکٹر صابر آفاقی مرحوم آپ کے چھوٹے بھائی اسرائیل مہجور ، ماسٹر احمد دین ، مولانا مہر دین قمر جیسے برق رفتار کارکن اور غلام احمد رضا جیسے نوجوان شامل تھے ۔ہجرت کے بعد رانا فضل حسین بھی آپ کی تنظیم میں شامل ہوگئے۔ ادارہ ادبیات گوجری کے ممبران رضاکارانہ اور بلا معاوضہ گوجری پروگرام جو تقریروں نظموں، گیتوں کی صورت میں ریڈیو آزاد کشمیر سے تقریباً تین سال تک خدمات سر انجام دیتے رہے ۔ارباب اختیار اور ڈائریکٹر آزاد کشمیر ریڈیو سے گوجری نشریات کا مطالبہ منوانے کے لیے جو وفد گیا۔ اس میں مولانا اسماعیل ذبیح ، چوہدری احمد دین ،جبکہ دیگر اراکین مولوی مہر دین قمر ، چوہدری مقبول حسین بانڈی عباس پور (پونچھ) چوہدری غلام احمد رضا آف راجوری اور چوہدری فیض اللہ جوشی آف پونچھ شامل تھے۔ ریڈیو آزاد کشمیرمظفر آباد سے گوجری زبان کو نمائندگی دلانے کا سہرہ بھی ادارہ ادبیات گوجری کو حاصل ہے۔ چوہدری غلام احمد رضا جب مشیر آزاد حکومت بن گئے تو اطلاع و نشریات کا محکمہ بھی ان کے پس تھا۔ اس طرح یکم نومبر 1974ء کو مظفر آباد سے گوجری نشریات کا آغاز ہوا۔سب سے پہلے 1967ء میں ریڈیوتراڑ کھل سے گوجری نشریات کا آغاز ہو ا اس کے بعد سر ی نگر ،جموں ، مظفر آبادسے اس طرح گوجری آج ایک عالمی زبان کی حثیت اختیار کر چھکی ہے کئی ریڈیوں اور ٹی وی اسٹیشنوں سے اس زبان میں پروگرام نشرہوتے ہیں ۔ آپ نے اپنے قبیلے کی سماجی اور اصلاحی سر گرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ پاکستان میں جہاں بھی قبیلہ کا اجلاس ہوا اس میں شریک ہوئے۔ اسی طرح کا ایک اجلاس نظام آباد کے مقام پر ہوا۔ اس اجتماع میں ریاست جموں کشمیر کے گوجر قوم کے نمائندگان پر مشتمل ایک مرکزی بورڈ چنا گیا تھا۔ جو برادری کے مسائل کے حل کی طرف کوشاں رہتا تھا۔ اس کے اراکین میں مولانا اسماعیل ذبیح ، چوہدری دیوان علی، چوہدری سلطان علی، چوہدری غلام حسین لاثانوی اور چودھری علی محمد برادری کے لیے کی گئی ان کی کوششوں اور اجتماعات کے منقد کروانے میں چوہدری خان مُلک آف اجنالا گجرات کی خدمات قابل قدر ہیں۔ علی حسن چوہان نے اپنی کتاب "تاریخ گورجر" آپ کی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ 1951ء میں مولانا نے انجمن گوجراں کے نام سے تنظیم قائم کی ۔آپ اس کے صدر اور سردار فخر عالم کھٹانہ آف کوٹ نجیب اللہ سابق چیف جسٹس ہائیکورٹ سرحد اس کے صدر اور مولانا ذبیح نائب صدر تھے۔سردار فخر عالم کے ملازمت میں چلے جانے کے بعد آپ نے گوجر ویلفیئر ایسو سی ایشن قائم کی۔ آخر کار آپ کی جدو جہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور وزرات امور کشمیر نے آپ کا مطالبہ تسلیم کر لیا اور گوجری پروگرام کے لیے بجٹ نہ ہونے کا عندیہ دیا اس کے باوجود آپ نے اور آپ کے رفقاء نے بلا معاوضہ ریڈیو پر خدمات پیش کی جلد ہی آپ کے ساتھ رانا فضل حسین بھی شامل ہو گئے اور انہوں نے کل وقتی خدمات سرانجام دی ۔
اردو زبان کی ترقی کے لیے آپ نے انجمن ترقی اردو ہزارہ ڈویژن قائم کی جس کے آپ صدر اور منیر نیازی جنرل سیکرٹر ی تھے ۔ آپ کے خاص رفقاء میں مولانا عبد الحکیم سابق ممبر قومی اسمبلی سردار محمد یوسف وفاقی وزیر مذہبی امور کو آپ سیاست میں آگے لائے آج وہ جس مقام پر ہیں اس میں آپ کی تربیت شامل ہے ۔ چوہدری فضل الہی سابق صدر پاکستان سے بھی آپ کے ذاتی تعلقات تھے چوہدری غلام عباس کے مشورہ کے بعد غلام احمد رضا مرحو م کو میرپور میں ایڈ جسٹ کیا تا کہ اپنے لوگوں سے قریبی تعلق برقرار رہے آپ کی تربیت کا اثر تھا کہ چوہدر ی غلام احمد رضا نے حلقہ کھوئی رٹہ ضلع کوٹلی سے انتخابات میں حصہ لیا اور وزارت کے منصب پر فائز ہوئے اس سے قبل سردار عبد القیوم سے کیے گئے وعدے کے مطابق مولان ذبیح اور چوہدری وزیر علی نے صدارتی الیکشن میں سردار قیوم کی بھر پور حمایت کی جس کے بعد سردار عبد القیوم خان نے صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد چوہدری غلام احمد رضا کو اپنا صدارتی مشیر نامزد کیا ریاست کے دو بڑے خاندانوں چوہدری دیوان علی کٹھانہ اور ذبیح صاحب کے درمیان دوستانہ تعلقات تھے اس لیے چوہدری دیوان علی نے اپنے بھتیجے غلام احمد رضا کا رشتہ آپ کی بیٹی سے طے کیا مذہبی سیاسی مصلح ہونے کے علاوہ آپ صاحب طرز ادیب و شاعر تھے پنجابی سی حرفی ھدیتہ الا ذبیح شا ئع ہو چکی ہے اس کے علاوہ گوجروی کلا م کے تین چھوٹے چھوٹے مجموعے ’نالہ دل(دسمبر 1965) ، انتظار (گلدستہ ذبیح) ،آپ اردو ،عربی اور فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے۔اردو، مثنوی، بنات عجم،بھی شائع ہو چکی ہے۔ یادِ وطن اور آثار زیور طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں ۔گوجری زبان میں حقیقت و مجاز کے نام سے لکھی گئی سہ خرفی بھی شائع ہو چکی ہے اس میں خدا کی گونا گوصفات کی تفصیر بیان کی ہے محبت ثبوت حیات کیا علاوہ سرمایہ حیات بھی ہے کائنات ارض و سما کی ہر چیز اسی محبت پر برقرار اور رواں دواں ہے ۔
ثانیاً یہ کہ نسل انسانی کا آغاز ایک باپ آدام علیہ السلام سے ہوا لہذہ زمین پر بسنے پر سب لوگ ایک ہی پیڑ کی شاخیں ہیں ایک ہی شاخ کے پتے ہیں ۔سی حرفی با لعموم عشق و محبت، درد وسوز اور ہجر و سال جیسی کیفیات اظہار کے لیے محسوس ہوا کرتی ہے 1965میں نالہ دل ، 1966میں یاد وطن 1972میں اثار کے نام سے گوجری کتابچے شائع ہوئے گلدستہ ذبیح اور انتظار کے نام سے گوجری کلام 1987میں شائع ہوا آپ کی گوجری شاعری میں ہجر فراق اور بے وطنی کے جذبات کے علاوہ اخلاقیات بھی شامل ہے آپ کی گوجری شاعری میں سہ حرفی بارہ ماہ نظم ،دعا ، گیت اور غزل شامل ہیں ۔جموں کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز جموں سرینگر نے آپ کی جملہ کتب شائع کی ہیں۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر صابر آفاقی آپ اور آپ کے بھائی بدھل کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ آپ کو بجا طور پر گوجری زبان کا مولوی عبد الحق کہا جا سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب آزاد کشمیر کا تاریخی دورہ کیا تو سردار محمد عبدالقیوم اور سردار ابراہیم کی موجودگی میں مظفر آباد کے مقام پر آپ نے تحریک آزادی پر بھرپور خطاب کیا۔ اس کے علاوہ آپ 17اپریل 1992ء کو پیرانہ سالی کے باوجود لاہور تشریف لے گئے اور گوجری مشاعرہ میں مسند صدار ت کو عزت بخشی اور طویل صدارتی خطبہ ارشاد فرمایا۔
عالم باعمل ہونے کے ناطے شاعری میں مقصدیت کے قائل ہیں سو ز و گد از سے بھر پور شاعری میں انسانی قدروں کو زندہ رکھنے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے گوجری کے علاوہ آپ چونکہ اردو فارسی عربی اور اسلامیات پر بھی عبور رکھتے تھے آپ کی تصا نیف یتیم پوتے کی وراثت ، قتل مرتد ،اپنے موضو ع کے اعتبا رسے منفرد کتاب ہے ۔ جس کا حوالہ پاکستان عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر رفیق انجم کے مطابق ’’عالم دین ہونے کے ناطے گوجری ادب میں جو مقام ذبیح راجوروی کو حاصل ہے وہ اپنی زندگی میں ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا‘‘بقول پروفیسر ڈاکٹر صابر آفاقی مرحوم ’ذبیح راجوروی پیر پنجال کے دیو دار کی طرح تنہا اور گمبیر بھی ہے بلند بھی ،پرسکون بھی ، اور پروقار اور سدا بہار بھی یہی وجہ ہے کہ آپ کا گوجری کلام ریاست بھر میں مقبول عام ہے بلکہ ریاست کے باہر گوجری زبان کے حلقوں میں بھی
آپ نے اس دور میں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جس کا باعث آپ کے بچے اللہ کے فضل و کرم سے باوقار زندگی گزار رہے ہیں آپ کی بڑی بیٹی چوہدری غلام احمد رضا سے بیاہی گئی آپ کی دوسری بیٹی پاکستا ن آرمی کے ممتاز ڈاکٹر جنرل چوہدری محمد انور کی اہلیہ ہیں جب کہ چھوٹی صاحبزادی کے میاں آج کل صوبہ خیبر پختون خواہ ہیں چیف کنزر ویٹر فاریسٹ کے عہد ہ پر تعینات ہیں ۔آپ کے بڑے بیٹے میجر حفیظ چوہدری پاکستان مسلم لیگ ن کے ممتاز راہنما ہیں صدر آزاد کشمیر کے مشیر رہ چکے ہیں وزیر اعظم معینہ کمیشن کے چےئر میں کی حثیت سے خدمات سرانجام دی ہیں چوہدری عبد العزیز انگلینڈ میں رہائش پذیر ہیں میجر میثاق کیبنٹ ڈویژ ن اسلام آباد میں ڈائر یکٹر کی حثیت سے کام کر رہے ہیں پروفیسر طاہر فاروق محکمہ تعلیم کالجز میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہیں شاہد اقبال نے ایبٹ آباد میں تعلیمی ادارہ کھول رکھا ہے ۔بشارت اقبال سویٹزر لینڈ میں مقیم ہیں خالد محمود ایبٹ آباد میں تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں ۔
تمام عمر جہد مسلسل میں گزارنے اور کامیابیاں سمیٹنے کے بعد 11فروری 1996ء بمطابق 20رمضان المبارک 1416ہجری تک چوراسی برس کی عمر پائی اور بھرپور زندگی گزارنے۔ملی اور قومی خدمات سر انجام دینے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔اور جس ماہ میں آپ متولد ہوئے تھے اور جب رحمت پروردگار اہل زمین پر متوجہ ہوتی ہے اسی مہینہ میں رحلت فرمائی۔ آپ کی نماز جنازہ نواں شہر گراؤنڈ میں ادا کی گئی۔ جس میں ہزار ہا لوگ شریک ہوئے نماز جنازہ قاضی محمد نواز خطیب الیاسی جامع مسجد نے پڑھائی ۔ آپ کو نواں شہر ایبٹ آباد میں سپر د خاک کیا گیا ۔
مولانا محمد اسماعیل ذبیح ریاست جموں کشمیر اور پاک ہند میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں آپ بیک وقت عالم دین ، سیاسی سماجی راہنما ،مبلغ اسلام ،شاعر ہفت زبا ں کی حثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ مولانا اسماعیل ذبیح کی ولادت سر سبز پہاڑوں اور چراگاہوں کے مقام کالا پانی نامی ڈھوک میں سولہ رمضان المبارک 1332 ہجری بمطابق8اگست1914بروز اتوار کو عشاء کے وقت ہوئی جہاں آپ کے خاندان کے لوگ موسم گرما گزارنے جایا کرتے تھے۔ آپ کے آباؤ اجداد بالا کوٹ ضلع مانسہرہ ہزارہ کی ملحقہ بستی پتلنگ کے رہائشی تھے۔ جنہوں نے گجرات پنجاب کے مقام پر لکھنوال سے آ کر اس بستی کو آ باد کیا تھا۔ لکھن آپ کے جد امجد کا نام ہے۔ آپ کے والد محترم اُس پسماندگی کے دور میں ایک جید عالم دین تھے ۔تحصیل علم کے بعد آپ کے والد محترم بالا کوٹ سے ریاست جموں و کشمیر دیکھنے گے تو وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ وہیں شادی کی اور متعدد مقامات پر تدریس و معلمی کی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ بالآخر راجوری صوبہ جموں کی آنس وادی میں بُدھل کی ایک بستی ڈنڈوت کو مسکن بنایا ۔ 10محرم 1360ہجری بمطابق 7فروری 1841ء جمعرات کی شام کو مولانا محمد عبد اللہ نے ہزاروں لوگوں کو علم دین سے سیراب کر کے وفات پائی۔ اور ڈنڈوت میں ہی دفن ہوئے۔ مولانا ذبیح کی والدہ ماجدہ ایک نیک اور خدا رسیدہ خاتون تھیں۔ انہوں نے 26جنوری 1954ء کو نواں شہر ایبٹ آباد میں وفات پائی۔ ان کا تعلق ریاست جموں کشمیر کی ممتاز شخصیت مقدم عبدالکریم کے خاندان اور بابا جی لاروی کے عزیزوں میں سے تھیں۔ آپ کے والد کا قد تقریباً ساڑھے چھ فٹ تھا اور بدھل میں آپ نے مدرسہ قائم کیا ہوا تھا مولانا محمد عبد اللہ چیچی نے اپنے فرزند ارجمند کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی عربی اور فارسی کی تعلیم اسماعیل ذبیح اور ان کے چھوٹے بھائی نے اپنے والد سے حاصل کی ۔جبکہ عربی زبان کا ابتدائی حصہ مولانا محمد یعقوب فاضل دیو بند علاقہ لاڑ سے پڑھا ہے۔ اس کے بعد مدرسہ نصر ۃ الحق اور مدرسہ نعمانیہ سے درس نظامی اور احادیث مبارکہ کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد سری نگر کے اوریئنٹل کالج میں داخلہ لیا۔جہاں پر بڑھے قابل او ر فاضل اساتذہ عربی زبان پڑھایا کرتے تھے۔ جہاں سے فارغ ہونے کے بعد کچھ عرصہ قاضی القضاۃ مولانا شریف الدین اور مولانا حسن صاحب جیسے اساتذہ سے دینی کتابیں پڑھیں۔ پھر سرینگر سے دورہ حدیث کے لیے دارالعلوم دیوبند جانے کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ مگر امرتسر پہنچے تو بعض ہمراہیوں کے مشورے سے وہیں ٹھہر گئے۔دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1935ء کے آخیر میں کشمیر چلے گئے اور 1938ء سماجی خدمات کے لیے ریاست کی اولین سیاسی جماعت مسلم کانفرنس سے وابستہ ہوگئے۔
1938میں معلم کے طور پر ملازمت شروع کی اور سانبہ بھدروا اور اکھنور کے ہائی سکولوں میں عربی فارسی وار اردو کی تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ لیکن زیادہ دیر تک ملازمت نہ کر سکے ۔ جب کچھ قبائل کو مناسب نمائندگی نہ ملی توا نہوں نے گجر جاٹ کانفرنس کے نام سے علحیدہ جماعت بنائی آپ نے اس کے قیام سے اختلاف کیا اور کہا کہ بے شک قبیلہ برادری کی فلاح و بہود کا کام کریں لیکن اس کو قیبلائی رنگ ہر گز نہ دیں ۔سیاسی جماعتیں نظریا ت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں آپ کی وابستگی آج جموں کشمیر مسلم کانفرنس سے ہی رہی ۔ایک با ر لار شریف سری نگر میں عرس میں تشریف لے گئے بابا جی صاحب لاروی آپ سے باپناہ محبت رکھتے تھے عرس میں رش اور عقیدیت مندوں میں بابا جی صاحب گرِ ے ہوئے تھے دوسر ے روز آپ نے جب بابا جی صاحب سے اجازت چاہی تو بابا جی صاحب نے فرمایا ’’ذبیح آپ نے رات بڑی تنگی میں گزاری ہے رش کم ہو گیا ہے آپ ابھی قیام کریں ساتھ ہی ملازم ہو بلایا اور اسے حکم دیا کہ ذبیح صاحب کے کپڑے صاف کر کے اور استری کر کے لاؤ ‘‘اس واقعہ سے آپ کی عزت و احترام کا اظہار اور قدر دانی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔
آپ کے خصوصی تعلقات چوہدری حسن دین حسن آف پنچ ، بھیا عبد الکریم ، خواجہ شریف مرخوم بدھل والوں سے تھے اس وقت کی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کو مضبوط بنانے میں دن رات کیا آپ چوہدری غلام عباس کے دست راس تھے اس کے علاوہ چوہدری اللہ رکھا ساغر ، راجہ حیدر خان اور دیگر سیاسی راہنماؤں سے خاص تعلقات تھے ۔1947میں جب انقلاب آزادی کا آغاز ہو ا تو آپ نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس سلسلہ میں آپ نے کئی بار راولپنڈی کا رخ کیا اور اسلحہ محاذ جنگ تک پہنچایا ریاست کے مشہور مصنف اور وکیل مرحوم چوہدری محمد شریف ایڈووکیٹ اپنی کتاب جموں کشمیر کی تحریک آزادی کی کہانی تاریخ کی زبانی میں رقم طراز ہیں ۔
بدھل ایریا (راجوری) میں تحریک
راجوری بدھل ایریا میں علاقہ گلاب گڑھ کے ایڈمنسٹر یٹر چوہدری علی محمد تھے ان کے ساتھ مولوی محمد اسمعیل ذبیح مرحوم (حال ایبٹ آباد ) نے اس علاقے میں انتظامی کمیٹیاں تیار کی گئیں ۔انتظامی کمیٹیاں تیار کرنے میں سردار جلال الدین آف کنڈی نے بھی مدد کی ان انتظامی کمیٹیوں کے صدر اسماعیل ذبیح تھے چنانچہ 1948میں جب کے جنگ آزاد ی جاری تھی اور مولانا محمد اسماعیل ذبیح ،خواجہ محمد شریف ، بدھلوی کالا خان برادرز سردار اسلام الدین بودھلہ کو ساتھے رکھ کر ذبیح صاحب راولپنڈی آئے ۔ یہاں پر آکر جنرل افتخار ، جنرل طارق اور جنرل اکبر سے ملے اور علاقے کی صورت حال بتائی چنانچہ اس علاقے کے 500رائفلیں پہنچائی مگر وہ صیحح لوگوں تک نہ پہنچ سکی جس میں محمد اسماعیل مہجور راجوروی اور مولوی محمد اسٰحق نایب صوبیدار تھے اس بٹالین کو مثالی طور پر چلایا گیا اور بعد میں اس کی کمان راجہ محمد افراسیاب کو دے دی گئی ۔پھر کیپٹن جمال الدین آف کوٹلی مرحوم اور پھر کیپٹن سیف علی اور پھر کیپٹن نتھا خان کٹاریہ نے بڑی بہک کے مقام پر راجوری اور پونچھ کے درمیانی ایریا میں کمان سنبھالی ۔کیپٹن نتھا خان نے وہاں پر حیدری بٹالین بنانے کی تحریک کی اور بنائی چوہدری علی محمد کو ایڈمنسٹر یٹر مقرر کیا گیا ۔اسماعیل ذبیح صاحب سیالکوٹ میں چوہدری غلام عباس سے بھی ملے محمد اسماعیل ذبیح کو انہوں نے مبلغ اسلام کا خطاب دیا جنگ آزاد ی کو جاری رکھنے کے لیے شاید راجوری میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں رئیس اعظم مینڈ ھر چوہدری غلام حسین لسانوی ، علی محمد ذیلدار ، لعل بھٹی مینڈر والے ، محمد اسماعیل سردار جلال الدین آف کنڈی کیپٹن نتھا خان ، چوہدری فضل دین اف چھونگا ں بھی شامل تھے اس میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان کے پاس جاکر مزید امداد حاصل کی جائے ذبیح صاحب سردار ابراہیم صدر آزاد کشمیر اور چوہدری غلام عباس سے ملے پھر اکھنور سے چوہدری دیوان علی بھی راجوری آگئے راجوری میں جاکر چوہدری دیوان علی نے اپنے لوگوں کو جنگ کے لیے منظم کیا ڈوگرہ فوج نے سلا ل پل پر بکروالوں کے چودہ سے کنبے جن کی تعداد 6000کے لگ بھگ کو قتل کر دیا اور ہندؤ جتھے بھی اس قتل میں شامل تھے کچھ عورتوں نے دریا میں چھلانگیں لگا دیں ۔بکروالوں نے نہتے ہوئے بھی ڈوگرہ جتھوں کا مقابلہ کیا جن میں ہندوں جتھوں کے لوگوں کو بھی نقصان پہنچا نہتے بکروالوں نے ڈوگرہ آرمی جو مسلح تھی سے کیا مقابلہ کرتے بہت کم بکروال بچ کر آئے اس کے علاوہ راجوری بدھل کے علاقے میں چوہدری میراں بخش آف کنڈی ، حسین بخش نمبر داربدھل قاضی ولی محمد ، چوہدری سخی محمد پتلی کنڈی چوہدری سلا م الدین نے تحریک آزادی میں اہم کراد ر ادا کیا ۔
جون 1947ء میں ریاست کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر آپ اپنا وفد لے کر آزاد کشمیر و پاکستان آئے۔ تاکہ اہل علاقہ کو تحفظ دیا جا سکے۔ اس وقت تک غاصب بھارت ،نوشہر ہ راجوری اور پونچھ شہر پر قابض ہو چکا تھا۔ جبکہ تمام دیہات اور مضافات اور مشرق کی طرف سے دریائے چناب سے ملحقہ علاقہ آزاد تھا۔ اور آزاد فوج کے فوجی چناب سے مغرب کی طرف رام بن نامی مقام پر متعین تھے۔ چنانچہ وفد کے لیے علاقہ کے عوام نے مولانا اسماعیل ذبیح اور خواجہ محمد شریف کو منتخب کیا۔ مولانا ذبیح بدھل سے خواجہ محمد شریف کے ہمراہ مینڈھل ،ہجیرہ، اور پلندری سے ہوتے ہوئے راولپنڈی پہنچے اور آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے ارباب اختیار قاعد کشمیر چوہدری غلام عباس خان ،سردار محمد ابراہیم میر واعظ مولانا یوسف شاہ بریگیڈیئر حبیب الرحمٰن ،میجر جنرل افتحار، اور جنرل اکبر خان سے ملے۔
ریئس اعظم مینڈھر چودھری غلام حسین لاثانوی بھی اس وقت راولپنڈی میں تھے۔ وہ بھی اس وفد سے ملے ۔ان کے ہمراہ مولوی مہر دین قمر راجوروی اور مولوی لال بھٹی بھی تھے۔ ارباب اختیار کی یہاں یقین دہانیوں اور تحفظ فراہم کرنے کے وعدوں کے بعد ہدایات لے کر تمام تر راستہ پیدل طے کرنے کے بعد آپ بدھل واپس جا پہنچے۔ اور چودھری علی محمد ایڈمنسٹریٹر علاقہ کے ہمراہ امن اور تحریک آزادی کو منظم کرنے میں سر گرم ہوگئے۔
جب حالات زیادہ خراب ہوگئے تو شاہ درہ راجوری میں ایک اجلاس بلایا گیا۔ تا کہ تحریک آزادی کو منظم اور مربوط طریقے سے چلایا جا کسے۔ شاہدرہ کے اجلاس میں کیپٹن نتھا خان شیر جنگ آف سہنسہ ضلع کوٹلی جو اس علاقے کی فوجی کمان کر رہے تھے وہ بھیشریک ہوئے اس کے علاوہ چودھرے غلام حسین لاثانوی اور فضل دین آف چھونگاں مینڈھر کچھ دوسرے افراد بھی شریک ہوئے۔
ڈوگرہ مہاراجہ کی پسپائی کے بعد جب بھارتی غاصب نے ریاست پر قبضہ کرنا شروع کیا تو اور وہ بدھل میں داخل ہو ئی تو آپ نے اپنے رفقاء اور اہل علاقہ جو تقریبا تیس سے پینتس ہزار افراد پر مشتمل تھے یہ واقعہ 14نومبر 1948ء کا ہے۔ ہزاروں افراد پر مشتمل قافلہ بلند پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ اسی دوران برف باری شروع ہوگئی۔ چناچہ شکر مرگ اور کافر کٹھا سے اوپر پہاڑ کی چوٹی عبور کرتے ہوئے سردی اور برف باری کی وجہ سے قافلہ کے کئی کمزور ضعیف اور بیمار لوگ اپنا سفر جاری نہ رکھ سکے اور وہیں برف میں دب گئے۔ ان کی نعشوں کا پتہ آئندہ سال وہاں کے مسلمانوں کو چلا جب وہاں سے برف پگھلی اور انہوں نے ان کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ آپ کا قافلہ پونچھ سے ہوتا ہوا ناڑ منڈی کی طرف سے آزاد کشمیر کی طرف بڑھامگر قافلے کا پچھلا حصہ بارڈ لائن کے قریب پہنچا تو دشمن کی فوجیں درمیان میں حائل ہوگئیں۔ مولانا ذبیح بھی اپنے عزیزو اقارب سمیت محاصرے میں آگئے۔ اور پھر ہاڑی مڑوٹ کے جنگل کے دامن میں ایک مکان میں موسم سرما گزارا۔ اس کے بعد جنگ بندی ہوگئی۔
آپ اپنے اہل و عیال کو لے کر ہاڑی مڑوٹ سے مینڈھر چلے آئے۔ مینڈھر میں رام لعل نامی تحصیلدار سول ایڈمنسٹریٹر تھا۔ اس نے وہاں کی امن کمیٹیوں کے فیصلہ جات کرانے کے لیے ذبیح صاحب کو نگران مقرر کیا۔ اس وقت چودھری فیض حسین آف گڑسائی ا ن کمیٹیوں کے صدر تھے۔ بالآخر 3مئی 1949ء کو مولانا ذبیح اپنے بھائی اسرائیل مہجور اور متعلقین کے عیال سمیت مینڈھر سے براستہ سونا گلی سٹالی چیڑھ آزاد کشمیر میں داخل ہوگئے۔ وہاں سے 16مئی 1949ء کو میرپور پہنچ آئے۔
ہجرت کے بعد کوٹلی ، سرائے عالمگیر ، اورنگ آباد، مری اور اس کے بعد نواں شہر ایبٹ آباد میں قیام کیا آپ کو کئی جگہوں پر زمین الاٹ کرنے پیش کش کی لیکن آپ نے اس یقین کے ساتھ یہ پیش کش رد کر دی کی جلد یا بدیر امن ہو جائے گا اور ہم وطن کو واپس چلے جائیں گے ۔
بدھل میں آپ کی زمین و جائیداد اور مکان اسی طرح ہے البتہ مکین کوئی اور ہے آپ نہایت دلیر ثابت قدم انسان تھے آپ کہا کرتے تھے کہ خوف صرف خدا کی ذات کا ہونا چاہیے کسی سے ڈر کر خوف ذدہ ہو کر زندگی نہیں گزارانی چاہیےے غریب پرور تھے آپ کہا کرتے تھے ان لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے آپ زندگی میں جہد مسلسل پر یقین رکھتے تھے ۔
پاکستان پہنچنے کے بعد آپ اپنی جماعت مسلم کانفرنس کی تنظیم اور مہاجرین کے مسائل حل کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اور ضلع ہزارہ میں مسلم کانفرنس ہزارہ، ممبر مرکزی مجلس عاملہ ،چیئر مین مذہبی امور، ممبر ضلعی رفیوجی کونسل، کنوینر کے ایل ایم ہزارہ کی حیثیت سے خدمات بجا لاتے رہے۔
جون 1959میں جب کے ایل ایم کی تحریک کا آغاز ہوا تو آپ مرکزی راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے آپکو کے ایل ایم کی تحریک کے دوران کمانڈر نمبر 7 مقرر کیا گیا۔ آپ اپنے جیش کو لے کر جنگ بندی لائن توڑنے کے لیے چناری(مظفر آباد) پہنچے۔ یہاں پر پولیس نے نہتے افرادپر تشدد کیا اور ان کو گرفتار کر کے گڑھی حبیب اللہ لا کر چھوڑ دیا۔
دوبارہ مرکزی کمان کی طرف سے حکم ملنے پر اپنے جتھے کو لے کر چکار پہنچے ۔جہاں سے آپ چناری جانا چاہتے تھے۔ پولیس نے سیفٹی ایکٹ کے تحت آپ کو گرفتار کرنے کے بعد کوہالہ سے پاکستان کی حدود میں لا کر چھوڑ دیا۔ اور تین ماہ کے لیے آزاد کشمیر میں داخلہ ممنوع قرار دیا۔ آپ نے اس آرڈر کی پرواہ نہ کی اور دوبارہ مہاجرین کو اکٹھا کیا ۔سید حیدر شاہ۔ غالب سمیت بسوں پر سوار ہو کر کوہالہ پہنچے تو آپ کو دوبارہ سید حیدر شاہ کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد راولپنڈی سینٹرل جیل میں پہنچا دیا گیا۔ جہاں پر چودھری غلام عباس خان، سردار عبد القیوم خان، کے ایچ خورشید، اور جماعت کے کئی دوسرے راہنما موجود تھے ۔ اور ایوب خان کے اقتدار سنبھالنے پر رہائی ملی مہاجرین کی آباد کاری کے لیے چوہدری غلام عباس خان پنجاب اور سرخد کے وزرائے اعلی جس کمیٹی کے ممبر تھے آپ بھی اس میں شامل تھے آپ نے اس وقت کے وزیر اعظم حسین شہید سہر وردی سے ملاقات کی اور مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلہ میں مشکلات سے آگاہ کیا ۔
ایک بار آپ شدید علیل تھے آنکھوں میں سوزش بھی تھی پھر بھی آپ نے کھڑے ہو کر راولپنڈی سے جہلم تک بس میں سفر کیا اور گوجرنوالہ پہنچے جہاں پر مسلم کانفرنس کا سالانہ اجلاس منعقدہو رہا تھا چوہدری غلام عباس مرحوم نے آپ کی حالت دیکھ کر کہا ’’ اس جماعت کو کوئی شکست نہیں دے سکتا جس میں مولاناذبیح جیسے کارکن شامل ہوں یہ جماعت کا سرمایہ ہیں ‘‘
اس کے علاوہ آپ نے ایبٹ آباد کی مقامی سیاست میں بھر پور حصہ لیا وہاں پر آپ نے گجر ویلفےئر ایسویشن کی تشکیل کی سردار فخر عالم سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ صدر اور آپ جنرل سیکرٹری تھی آپ نے عوامی فلاح و بہود کے کام کابھی آغاز کیا اور محب وطن افراد کی زمینوں کی چھن جانے اور ان کو انگریز سامراج کے پٹھوں کودئیے جائے کے بعد کاشت کار قرار دئیے گئے آپ نے سابق ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدا لحکیم کے ساتھ مل کر افراد کو حقوق مالکیت دلانے کے لیے ایبٹ آباد مانسہرہ بٹ گرام میں کسان عوامی محاذ بنایا ۔اور کےئی بار شیخ رشید آئی یو خان ، مفتی محمود، وزیر اعلیٰ سرحد، اور دیگر متعلقہ افسران سے ملے اور کسانوں کے بے دخلیاں روکنے اور ان کے مسائیل اور مشکلات حل کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ مسائل اور مطالبات پر مشتمل پمفلٹ چھپوائے اور وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ سرحد، وزراء اور ممبران اسمبلی تک وہ پمفلٹ پہنچوائے اس طرح حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالحکیم کو تحقیقات کے لیے مقرر کیا۔ آپ نے وفد کی قیادت کی اور جسٹس صاحب سے ملاقات کی ۔آپ کے ہمراہ مولانا عبدالحکیم بھی تھے۔ ا س طرح عوام کو جا گیر داروں کی ظلم و ستم سے نجات ملی اور بیگار کا خاتمہ ہوا۔آپ نے ہزارہ میں جمیعت علمائے اسلام کے لیے اور ملک میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے لیے بھی شب و روز خدمات سر انجام دیں۔ آپ کے دوست احباب جس میں مسلم لیگ (قیوم گروپ ) جمیت علمائے اسلام (ہزاروی گروپ ) نے آپ کو 1970کے انتخابات میں PF:13ہزرا سے انتخابات میں کھڑا کیا اگرچہ آپ کامیاب تو نہ ہو سکے لیکن کافی تعداد میں ووٹ حاصل کیے آپ کے
مد مقابل مذمل شاہ نے دھونس دھاندلی کے ہتھکنڈے استعمال کیا عوامی فلاح و بہبود ، دین سے وابستگی اس کی ترویج اشاعت کے علاوہ آپ نے گوجری زبان کو ریڈیو سے نشر کروانے کے لیے کافی جدو جہد کی 1947سے یہ احساس درد مند دل افراد میں تھا زبان کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے جدو جہد کی جانے چاہیے ۔زبان و ثقا فت کا تحفظ تاریخ و ثقافت کا تخفظ ہے ۔پھر گوجری اس سے کیوں محروم ہے یہ لسانی سے زیادہ عزت نفس کا معاملہ بھی تھا ۔1964میں سروری کسانہ نے جموں سے شائع ہونے والے اپنے سہ ماہی ’گجر دیس ‘ میں گوجری کی ترویج و با اشاعت کی کوشش کی تھی اس کے علاوہ آپ نے مادری زبان کی بہتری کے لیے ’ادارہ ادبیات گوجری قائم کیا آپ کے ہمراہ پروفیسر ڈاکٹر صابر آفاقی مرحوم آپ کے چھوٹے بھائی اسرائیل مہجور ، ماسٹر احمد دین ، مولانا مہر دین قمر جیسے برق رفتار کارکن اور غلام احمد رضا جیسے نوجوان شامل تھے ۔ہجرت کے بعد رانا فضل حسین بھی آپ کی تنظیم میں شامل ہوگئے۔ ادارہ ادبیات گوجری کے ممبران رضاکارانہ اور بلا معاوضہ گوجری پروگرام جو تقریروں نظموں، گیتوں کی صورت میں ریڈیو آزاد کشمیر سے تقریباً تین سال تک خدمات سر انجام دیتے رہے ۔ارباب اختیار اور ڈائریکٹر آزاد کشمیر ریڈیو سے گوجری نشریات کا مطالبہ منوانے کے لیے جو وفد گیا۔ اس میں مولانا اسماعیل ذبیح ، چوہدری احمد دین ،جبکہ دیگر اراکین مولوی مہر دین قمر ، چوہدری مقبول حسین بانڈی عباس پور (پونچھ) چوہدری غلام احمد رضا آف راجوری اور چوہدری فیض اللہ جوشی آف پونچھ شامل تھے۔ ریڈیو آزاد کشمیرمظفر آباد سے گوجری زبان کو نمائندگی دلانے کا سہرہ بھی ادارہ ادبیات گوجری کو حاصل ہے۔ چوہدری غلام احمد رضا جب مشیر آزاد حکومت بن گئے تو اطلاع و نشریات کا محکمہ بھی ان کے پس تھا۔ اس طرح یکم نومبر 1974ء کو مظفر آباد سے گوجری نشریات کا آغاز ہوا۔سب سے پہلے 1967ء میں ریڈیوتراڑ کھل سے گوجری نشریات کا آغاز ہو ا اس کے بعد سر ی نگر ،جموں ، مظفر آبادسے اس طرح گوجری آج ایک عالمی زبان کی حثیت اختیار کر چھکی ہے کئی ریڈیوں اور ٹی وی اسٹیشنوں سے اس زبان میں پروگرام نشرہوتے ہیں ۔ آپ نے اپنے قبیلے کی سماجی اور اصلاحی سر گرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ پاکستان میں جہاں بھی قبیلہ کا اجلاس ہوا اس میں شریک ہوئے۔ اسی طرح کا ایک اجلاس نظام آباد کے مقام پر ہوا۔ اس اجتماع میں ریاست جموں کشمیر کے گوجر قوم کے نمائندگان پر مشتمل ایک مرکزی بورڈ چنا گیا تھا۔ جو برادری کے مسائل کے حل کی طرف کوشاں رہتا تھا۔ اس کے اراکین میں مولانا اسماعیل ذبیح ، چوہدری دیوان علی، چوہدری سلطان علی، چوہدری غلام حسین لاثانوی اور چودھری علی محمد برادری کے لیے کی گئی ان کی کوششوں اور اجتماعات کے منقد کروانے میں چوہدری خان مُلک آف اجنالا گجرات کی خدمات قابل قدر ہیں۔ علی حسن چوہان نے اپنی کتاب "تاریخ گورجر" آپ کی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ 1951ء میں مولانا نے انجمن گوجراں کے نام سے تنظیم قائم کی ۔آپ اس کے صدر اور سردار فخر عالم کھٹانہ آف کوٹ نجیب اللہ سابق چیف جسٹس ہائیکورٹ سرحد اس کے صدر اور مولانا ذبیح نائب صدر تھے۔سردار فخر عالم کے ملازمت میں چلے جانے کے بعد آپ نے گوجر ویلفیئر ایسو سی ایشن قائم کی۔ آخر کار آپ کی جدو جہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور وزرات امور کشمیر نے آپ کا مطالبہ تسلیم کر لیا اور گوجری پروگرام کے لیے بجٹ نہ ہونے کا عندیہ دیا اس کے باوجود آپ نے اور آپ کے رفقاء نے بلا معاوضہ ریڈیو پر خدمات پیش کی جلد ہی آپ کے ساتھ رانا فضل حسین بھی شامل ہو گئے اور انہوں نے کل وقتی خدمات سرانجام دی ۔
اردو زبان کی ترقی کے لیے آپ نے انجمن ترقی اردو ہزارہ ڈویژن قائم کی جس کے آپ صدر اور منیر نیازی جنرل سیکرٹر ی تھے ۔ آپ کے خاص رفقاء میں مولانا عبد الحکیم سابق ممبر قومی اسمبلی سردار محمد یوسف وفاقی وزیر مذہبی امور کو آپ سیاست میں آگے لائے آج وہ جس مقام پر ہیں اس میں آپ کی تربیت شامل ہے ۔ چوہدری فضل الہی سابق صدر پاکستان سے بھی آپ کے ذاتی تعلقات تھے چوہدری غلام عباس کے مشورہ کے بعد غلام احمد رضا مرحو م کو میرپور میں ایڈ جسٹ کیا تا کہ اپنے لوگوں سے قریبی تعلق برقرار رہے آپ کی تربیت کا اثر تھا کہ چوہدر ی غلام احمد رضا نے حلقہ کھوئی رٹہ ضلع کوٹلی سے انتخابات میں حصہ لیا اور وزارت کے منصب پر فائز ہوئے اس سے قبل سردار عبد القیوم سے کیے گئے وعدے کے مطابق مولان ذبیح اور چوہدری وزیر علی نے صدارتی الیکشن میں سردار قیوم کی بھر پور حمایت کی جس کے بعد سردار عبد القیوم خان نے صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد چوہدری غلام احمد رضا کو اپنا صدارتی مشیر نامزد کیا ریاست کے دو بڑے خاندانوں چوہدری دیوان علی کٹھانہ اور ذبیح صاحب کے درمیان دوستانہ تعلقات تھے اس لیے چوہدری دیوان علی نے اپنے بھتیجے غلام احمد رضا کا رشتہ آپ کی بیٹی سے طے کیا مذہبی سیاسی مصلح ہونے کے علاوہ آپ صاحب طرز ادیب و شاعر تھے پنجابی سی حرفی ھدیتہ الا ذبیح شا ئع ہو چکی ہے اس کے علاوہ گوجروی کلا م کے تین چھوٹے چھوٹے مجموعے ’نالہ دل(دسمبر 1965) ، انتظار (گلدستہ ذبیح) ،آپ اردو ،عربی اور فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے۔اردو، مثنوی، بنات عجم،بھی شائع ہو چکی ہے۔ یادِ وطن اور آثار زیور طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں ۔گوجری زبان میں حقیقت و مجاز کے نام سے لکھی گئی سہ خرفی بھی شائع ہو چکی ہے اس میں خدا کی گونا گوصفات کی تفصیر بیان کی ہے محبت ثبوت حیات کیا علاوہ سرمایہ حیات بھی ہے کائنات ارض و سما کی ہر چیز اسی محبت پر برقرار اور رواں دواں ہے ۔
ثانیاً یہ کہ نسل انسانی کا آغاز ایک باپ آدام علیہ السلام سے ہوا لہذہ زمین پر بسنے پر سب لوگ ایک ہی پیڑ کی شاخیں ہیں ایک ہی شاخ کے پتے ہیں ۔سی حرفی با لعموم عشق و محبت، درد وسوز اور ہجر و سال جیسی کیفیات اظہار کے لیے محسوس ہوا کرتی ہے 1965میں نالہ دل ، 1966میں یاد وطن 1972میں اثار کے نام سے گوجری کتابچے شائع ہوئے گلدستہ ذبیح اور انتظار کے نام سے گوجری کلام 1987میں شائع ہوا آپ کی گوجری شاعری میں ہجر فراق اور بے وطنی کے جذبات کے علاوہ اخلاقیات بھی شامل ہے آپ کی گوجری شاعری میں سہ حرفی بارہ ماہ نظم ،دعا ، گیت اور غزل شامل ہیں ۔جموں کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز جموں سرینگر نے آپ کی جملہ کتب شائع کی ہیں۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر صابر آفاقی آپ اور آپ کے بھائی بدھل کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ آپ کو بجا طور پر گوجری زبان کا مولوی عبد الحق کہا جا سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب آزاد کشمیر کا تاریخی دورہ کیا تو سردار محمد عبدالقیوم اور سردار ابراہیم کی موجودگی میں مظفر آباد کے مقام پر آپ نے تحریک آزادی پر بھرپور خطاب کیا۔ اس کے علاوہ آپ 17اپریل 1992ء کو پیرانہ سالی کے باوجود لاہور تشریف لے گئے اور گوجری مشاعرہ میں مسند صدار ت کو عزت بخشی اور طویل صدارتی خطبہ ارشاد فرمایا۔
عالم باعمل ہونے کے ناطے شاعری میں مقصدیت کے قائل ہیں سو ز و گد از سے بھر پور شاعری میں انسانی قدروں کو زندہ رکھنے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے گوجری کے علاوہ آپ چونکہ اردو فارسی عربی اور اسلامیات پر بھی عبور رکھتے تھے آپ کی تصا نیف یتیم پوتے کی وراثت ، قتل مرتد ،اپنے موضو ع کے اعتبا رسے منفرد کتاب ہے ۔ جس کا حوالہ پاکستان عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر رفیق انجم کے مطابق ’’عالم دین ہونے کے ناطے گوجری ادب میں جو مقام ذبیح راجوروی کو حاصل ہے وہ اپنی زندگی میں ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا‘‘بقول پروفیسر ڈاکٹر صابر آفاقی مرحوم ’ذبیح راجوروی پیر پنجال کے دیو دار کی طرح تنہا اور گمبیر بھی ہے بلند بھی ،پرسکون بھی ، اور پروقار اور سدا بہار بھی یہی وجہ ہے کہ آپ کا گوجری کلام ریاست بھر میں مقبول عام ہے بلکہ ریاست کے باہر گوجری زبان کے حلقوں میں بھی
آپ نے اس دور میں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جس کا باعث آپ کے بچے اللہ کے فضل و کرم سے باوقار زندگی گزار رہے ہیں آپ کی بڑی بیٹی چوہدری غلام احمد رضا سے بیاہی گئی آپ کی دوسری بیٹی پاکستا ن آرمی کے ممتاز ڈاکٹر جنرل چوہدری محمد انور کی اہلیہ ہیں جب کہ چھوٹی صاحبزادی کے میاں آج کل صوبہ خیبر پختون خواہ ہیں چیف کنزر ویٹر فاریسٹ کے عہد ہ پر تعینات ہیں ۔آپ کے بڑے بیٹے میجر حفیظ چوہدری پاکستان مسلم لیگ ن کے ممتاز راہنما ہیں صدر آزاد کشمیر کے مشیر رہ چکے ہیں وزیر اعظم معینہ کمیشن کے چےئر میں کی حثیت سے خدمات سرانجام دی ہیں چوہدری عبد العزیز انگلینڈ میں رہائش پذیر ہیں میجر میثاق کیبنٹ ڈویژ ن اسلام آباد میں ڈائر یکٹر کی حثیت سے کام کر رہے ہیں پروفیسر طاہر فاروق محکمہ تعلیم کالجز میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہیں شاہد اقبال نے ایبٹ آباد میں تعلیمی ادارہ کھول رکھا ہے ۔بشارت اقبال سویٹزر لینڈ میں مقیم ہیں خالد محمود ایبٹ آباد میں تعلیمی ادارہ چلا رہے ہیں ۔
تمام عمر جہد مسلسل میں گزارنے اور کامیابیاں سمیٹنے کے بعد 11فروری 1996ء بمطابق 20رمضان المبارک 1416ہجری تک چوراسی برس کی عمر پائی اور بھرپور زندگی گزارنے۔ملی اور قومی خدمات سر انجام دینے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔اور جس ماہ میں آپ متولد ہوئے تھے اور جب رحمت پروردگار اہل زمین پر متوجہ ہوتی ہے اسی مہینہ میں رحلت فرمائی۔ آپ کی نماز جنازہ نواں شہر گراؤنڈ میں ادا کی گئی۔ جس میں ہزار ہا لوگ شریک ہوئے نماز جنازہ قاضی محمد نواز خطیب الیاسی جامع مسجد نے پڑھائی ۔ آپ کو نواں شہر ایبٹ آباد میں سپر د خاک کیا گیا ۔
صورت آفتاب تھا وہ شخص

0 تبصرے