Ticker

recent/post/

Header Ads Widget

پاکستان میں قومی زبان اجنبیت اور حکمراںوں کی بے حسی

پاکستان میں قومی زبان اجنبیت کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ حکمران کسی بھی طور قومی زبان اردو کو سرکاری دفاتر میں داخل نہیں ہونے دے رہے۔ اس مقصد کے لیے قائم ادارے اللوں تللوں میں مصروف ہیں۔ مقصدیت کہیں دکھائی دیتی۔ روس میں اردو، جرمنی میں اردو، صحافت میں اردو اور سینما میں اردو جیسے موضوعات پر سیمینار منعقد کیے جارہے ہیں۔ کبھی نہیں سنا کہ #ادارہ_فروغ_قومی_زباں نے کبھی نفاذ قومی زبان کی پیش رفت یا نفاذ قومی زبان میں حائل رکاوٹوں پر کوئی مجلس مباحثہ منعقد کی ہو۔ سوال کرنے پر منصب دار ناک چڑھا لیتے ہیں۔ جن اداروں پر قومی سرمایہ خرچ ہورہا ہے وہ اپنے ہر عمل اور سرگرمی پر عوام کو جواب دہ ہیں۔
کتنی بدقسمتی ہے کہ بڑی خاموشی سے راتوں رات کچھ اردو دشمنوں کی تجویز پر #مقتدرہ_قومی_زبان کو #ادارہ_فروغ_زبان میں بدل دیا گیا۔ حرام ہے کسی صاحب دانش نے سوال اٹھایا ہو۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کہیں دانش تو ہمارے ہاں سے نہیں اٹھ گئی۔ جب حساس ترین معاملات میں پڑھے لکھے افراد خاموش رہیں تو اسے بے حسی کہا جائے یا خود غرضی؟ اگر کسی کو اپنی کشتی ڈوبتی نظر آئے تو کیا وہ نظریں چرائے گا یا کشتی کو بچانے کی کوئی راہ تلاش کرے گا۔
قومی زبان صرف پہچان ہی نہیں ہماری تعمیر و ترقی کی بنیاد ہے۔ زبان غیر پر کھڑی عمارت تو روز اول سے لڑکھڑا رہی ہے۔ معیشت، اخلاق، سیاست، حکمرانی سمیت سارے ادارے ہچکیاں لے رہے ہیں۔
قومیں نظرئیے، زبان اور تہذیب کی بنیادوں پر کھڑی رہتی ہیں۔ انگریزی تسلط اور انگریز نما کالے گوروں نے قوم سے اس کا نظریہ، تہذیب اور زبان تک چھین لیا ہے۔ یہ اشرافیہ عہدوں سے استفادہ کے بعد بیرون ملک اپنے آقاؤں کی بغلوں میں عافیت حاصل کرتے ہیں اور پچیس کروڑ پاکستانی ان دلالوں کی گندگی صاف کرتے رہ جاتے ہیں۔ اشرافیہ کے سرغنے ہر جگہ ایسے لوگ پال رکھتے ہیں جو سیاہ کو سفید بیان کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ ذرا سی انگشت نمائی پر کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔
#ادارہ_فروغ_قومی_زبان 
کا مقصد نفاذ قومی زبان کے لیے تیاری کرنا ہے۔ (یہ درست ہے کہ سرکاری ملازمین نے حکومتی ترجیحات کے مطابق چلنا ہوتا ہے اور افسروں نے نوکریاں پکی کرنی ہوتی ہیں۔ )۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کو چھوڑ کر اس ادارے کی کارکردگی کیا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا قومی وسائل کو چین، جاپان، بھارت اور دوبئی میں اردو کی پیش رفت بیان کرنے پر خرچ کیے جائیں یا پاکستان میں دم توڑتی قومی زبان کو سہارا دینے پر صرف کیا جائے؟ اس ادارے کی شائع شدہ کتب کی فہرست دیکھ پر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنے وسائل نفاذ قومی زبان پر خرچ ہوئے اور کتنے منظور نظر (....) کی کتب کو زیور طباعت سے نوازنے پر خرچ ہورہے ہیں۔
پاکستان کی منہ زور نوکرشاہی قومی زبان اور قومی لباس کو سرکاری اداروں سے رخصت کر چکی ہے۔ شکائت کے لیے حکمران اور عدلیہ کا فورم ہی بچتا ہے وہ بھی درون خانہ اس مافیا سے ملا ہوا ہے۔ ایسے میں بس ایک ہر راستہ بچتا ہے کہ عوام ان اداروں کے دروازوں پر بیٹھ جائیں اور ان سے دستور پاکستان کے مطابق کام شروع کروائیں۔



 از:۔عطاءالرحمن چوہان    

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے