نوجوانوں میں عدم برداشت اور اس کے منفی نتائج
یہ واقعہ اس لحاظ سے بھی قابل افسوس ہے کہ یہ
ایک مسلمان ملک اور مسلم معاشرے میں پیش آیاجبکہ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو سب سے
زیادہ صبر و تحمل اور برداشت کا درس دیتاہے کیوں کہ انسان اگر صبر و تحمل کادامن
چھوڑدے تو پھر جذبات کے بہائو میں وہ ا س قدر اندھا ہوجاتاہے کہ اچھے برے کی
تمیزکھودیتاہے ۔اس کیفیت میں کیے گئے فیصلے ہمیشہ انسان کے لیے پچھتاوا بنتے
ہیں۔جلد بازی میں اٹھایاگیا قدم انسان کے گلے پڑسکتاہے اور کبھی کبھار یہ ایک
بھیانک روپ اختیار کرتے ہوئے بستیوں کی بستیاں اجاڑدیتاہے۔
بدقسمتی سے آج ہمیں بھی اپنے معاشرے میں جن
خوفناک مسائل کا سامنا ہے ان میں ایک بڑا مسئلہ ’’عدم برداشت‘‘ کا ہے۔یہ زہر
معاشرے کی رگوں میں اس قدر گہرائی کے ساتھ سرایت کرچکا ہے کہ آج آپ کوہردوسرا
شخص صبر و تحمل سے خالی نظر آئے گا۔بھیڑ میں اگر آپ کسی فرد سے معمولی ٹکراجائیں
یا ATM بوتھ
میں کچھ سیکنڈز زیادہ لگاجائیں توآپ عدم برداشت کے مظاہرے کھلی آنکھوں سے دیکھیں
گے کہ لوگ کس قدر غصیلے انداز میں اپنا ردِ عمل دکھاتے ہیں۔
صبر و تحمل سے محروم اس معاشرے میں خاندانی
اقدار بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔گیلپ سروے کے مطابق ’’عدم برداشت‘‘ کی وجہ سے
حالیہ کچھ عرصے میں طلاق کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔اس وبا نے جہاں معاشرے کے
دیگر طبقات کو متاثر کیا وہیں نوجوان نسل بھی بری طرح اس کی زد میں آچکی ہے۔یہی
وجہ ہے کہ آج تعلیمی اداروں میں معمولی باتوں پربھی بڑے واقعات دیکھنے کوملتے
ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اگر سوشل میڈیاپر نظر دوڑائی جائے تو وہاں بھی آپ کو نوجوان
نسل اپنا غصہ اور جارحیت دکھاتی نظر آئے گی اور خاص طورپر سیاسی معاملات پر تو
کوئی شخص اپنا موقف پیش ہی نہیں کرسکتا،کسی سیاسی لیڈر کے حق میں یاخلاف میں معقول
بات پر بھی اس قدر شدید ردِ عمل آتاہے کہ انسان کانوں کو ہاتھ لگالیتا ہے۔
اس سنگین مسئلے کی وجوہات جاننے اور اس رویے کو
کم کرنے کے لیے قاسم علی شاہ فائونڈیشن نے ایک مکالماتی نشست کا اہتمام کیا
اور’’قاسم علی شاہ فورم‘‘ پر شعبہ تعلیم سے وابستہ معروف علمی شخصیات کو مدعو کرکے
انھیں اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کا موقع دیا گیا۔اس نشست میں کئی ساری بہترین
تجاویز سامنے آئیں جو آج کی تحریر میں آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔
(1)جنریشن گیپ
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے
جہاں جوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔اس لحاظ سے یہ دنیا بھر میں اہمیت رکھنے والا
ملک ہے لیکن جہاں ہمارے پاس نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے وہیں ان کے لیے وسائل کا
شدید فقدان ہے۔ہمارے پاس ٹیکنالوجی تو جدید سے جدید تر آگئی ہے لیکن نئی نسل ابھی
تک رہنمائی اور درست سمت سے محروم ہے۔اسی طرح آج کے نوجوان جنریشن گیپ کا بھی
شکار ہیں۔والدین پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگے ہیں ، گھر آتے ہیں تو موبائل ہاتھ میں
لے کر سوشل میڈیا میں مصروف ہوجاتے ہیںاور بچے الگ سے موبائل لے کر بیٹھ جاتے
ہیں۔کمرے میں موجود بچے کے بارے میں والدین سمجھتے ہیں کہ یہ یہاں محفوظ ہیں لیکن
درحقیقت وہ بڑے خطرناک ہاتھوں میں ہوتاہے، کیوںکہ انٹرنیٹ کے ذریعے انسان کچھ بھی
دیکھ سکتاہے۔اس نسلی فاصلے نے مکالمے ،بات چیت اور اپنائیت کو ختم کردیا ہے اور
یہی وہ چیز ہے جس نے عدم برداشت کے ساتھ ساتھ بہت سارے مسائل کو جنم دیا ہے۔
(2)گھر ، پہلی درس گاہ
دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی گھر کا’’
دسترخوان‘‘ ہے ،جہاں گھر کے بڑے باتوں ہی باتوں میں بچوں کی تربیت اور اصلاح کرتے ہیں۔اس
پلیٹ فارم پر اگر نئی نسل کی تربیت کردی جائے تو پھر وہ معاشرے کے بہترین افراد بن
کر سامنے آتے ہیں،لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ آج تربیت کایہ عمل کافی کمزور
ہوچکا ہے۔آج گھروں میں بچے اور بڑے آپس میں بہت کم بیٹھتے ہیں۔دوسری طرف والدین
کا اپنارویہ بھی مثالی نہیں ہے۔ بچہ گھر میںدیکھتاہے کہ ماں خو د کرسی پر بیٹھی ہے
اور ملازمہ کو فرش پر بٹھایاہواہے۔گھر کے برتن الگ ہیں اور ملازمین کے برتن الگ تو
وہ بھی باہر کی دنیامیں انسانوں کو تقسیم کرتاہے، وہ غریب کوعزت نہیں دیتا ، وہ
کالے رنگ والے انسان کو قابل نفرت سمجھتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے عدم برداشت
کا رویہ پروان چڑھتاہے۔
(3)تربیت کے پانچ ادارے
اللہ نے قرآن میں انسان کو احسن تقویم کہا ہے
یعنی یہ ایسی تخلیق ہے جو جسمانی طورپر مکمل اور حسین ہے۔البتہ اس کے اندر معاشرتی
تربیت کی کمی تھی جس کو پورا کرنے کے لیے انبیاء کرام بھیجے گئے۔اس کے بعدخاندان،
تعلیم، مذہب ، سیاست اور معیشت وہ ادارے ہیں جو انسانوں کی تربیت میں اہم کردار
اداکرتے ہیں۔یہ سب کے سب بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی اگر
بگڑجائے تو باقی بھی متاثر ہوجاتے ہیں اور انسان کی تربیت میں کمی آنے لگتی
ہے۔آج معاشرے کے یہ پانچوں ادارے زوال کا شکار ہیں ، ہمیں ان پانچوں اداروںکو
مستحکم کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے تاکہ معاشرے کی بہترین تربیت ہوسکے۔
(4)اختلاف ، حسن ہے
اللہ نے پاکستان کو بہت سارے موسموں ، پھلوں ،
سبزیوں اور خوب صورت قوموں سے نوازا ہے۔یہاں پنجابی بھی ہیں، سندھی ، بلوچی اور
پٹھان بھی ۔اس کے ساتھ مختلف مذاہب بھی یہاں موجود ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ بھی ورائٹی اور تنوع کو پسند کرتاہے وگرنہ اس کے لیے کیا مشکل تھا کہ تمام
انسانوں کو ایک ہی ذات ، ایک ہی مذہب اور ایک ہی رنگ میں پیدا کردیتا۔اب جب ہمارا
خالق اس چیز کو پسند کرتاہے توپھرہم کیوں ایک دوسرے کو قومیت ، مذہب ، مسلک ، فرقے
، کالے گورے اور امیر غریب کے دائروں میں تقسیم کرتے ہیں اور انھیں برداشت ہی نہیں
کرتے ؟سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پارک،بازار اورسینماہالوںمیں ہر مذہب و فرقے کے
لوگ اکھٹے بیٹھے ہوتے ہیں، لیکن جب بات عبادت کی آتی ہے توپھر ہر ایک کی عبادت
گاہ دوسرے سے الگ ہوجاتی ہے اور قابل نفرت بھی۔ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ اللہ کے
پیداکردہ ہرانسان ،ہر قوم ،ہر مسلک اور ہرمذہب میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرورموجود
ہوتی ہے لیکن ہماری آنکھوں پر تعصب کی ایسی پٹی بندھی ہوتی ہے کہ ہم اس میں موجود
خوبیوں کو دیکھ ہی نہیں سکتے اور اس وجہ سے عدم برداشت کا رویہ ہمارے اندر پروان
چڑھتا ہے۔ ہمیں اس رویے کو ختم کرنا چاہیے اورہمارے ملک میں جتنا بھی اختلاف موجود
ہے اس کو اپنی طاقت بنانی چاہیے نہ کہ نفر ت کاذریعہ ۔
(5)کیاوالدین اور اساتذہ ،مثالی ہیں؟
بچوں کی زندگی پر والدین اور اساتذہ کا رویہ بہت
زیادہ اثرانداز ہوتاہے۔سوال مگر یہ ہے کہ کیاآج کے والدین اور اساتذہ مثالی ہیں؟
اکثر یہ دیکھاگیا ہے کہ گھر میں والدین اگر موبائل میں مصروف ہوں اور بچہ آکر کوئی
بات کرے تو ان کا پارہ چڑھ جاتاہے ۔وہ برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتے اور بچے کو جھڑک
دیتے ہیں۔اسی طرح اساتذہ بھی اگر کلاس میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھیں توبڑی جلدی
اشتعال میں آجاتے ہیں۔جب ان والدین اور اساتذہ کا رویہ برداشت اور تحمل سے خالی
ہوگاتو پھر نوجوان نسل بھی ایسے ہی رویے کو اپنائے گی۔
(6)میڈیااور عدم برداشت
ہر انسان جواس کائنات میں موجود ہے وہ ایک مقصد
کے لیے یہاں آیا ہے۔آج کا انسان اپنے آپ سے یہ سوال پوچھتاہے کہ میں کون ہوں؟و
ہ اپنے جواب کی تلاش میں ہوتاہے۔وہ میڈیا دیکھتاہے جہاں پر ڈراموں اورفلموں کے
ذریعے ایک بے بس یا ظالم انسان کی کہانی بیان کی گئی ہوتی ہے۔جواب ڈھونڈنے والا
اسی کہانی کو اپنی کہانی سمجھ بیٹھتاہے ۔وہ بھی یوں سمجھتاہے کہ میرے ساتھ معاشرہ
ظلم کررہا ہے ، مجھے اپنا حق لینا ہے اور اس سوچ کی وجہ سے وہ عدم برداشت کی طرف
چلا جاتاہے۔دوسری چیز یہ ہے کہ مارننگ شو ز میں شوبز، فیشن، بیوٹی ٹپس اور
شادیوںکے پروگرامز دکھائے جاتے ہیںجنھیں دیکھنے والی زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔یہ
صبح کا وقت ہوتاہے ۔اِس وقت میں شادیاں دکھانے کے بجائے مائوں کی تربیت کے پروگرام
ہونے چاہیے تھے تاکہ ان کی ذہنی اور فکری تربیت ہوتی اوراس کی بدولت وہ اپنی اولاد
کو بھی بہترین انسان بناپاتی ،لیکن افسوس کہ میڈیاکی دنیا میں تربیت سے زیادہ پیسا
اہم ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہماراتعلیمی نظام بھی
Collaboration(مدد)کو نہیںCompetition(مقابلہ بازی)کو پروموٹ
کررہاہے حالانکہ تعلیم کا مقصد ’اقدار کی منتقلیـ‘ تھا کہ بڑوں نے اپنی زندگی سے جو کچھ سیکھا
،وہ اب نئی نسل کو منتقل کردیں لیکن افسوس کہ تعلیم اب صرف کمائی کا ذریعہ بن چکی
ہے۔دوسری طرف والدین بھی بچوں سے نمبرمانگتے ہیں ، بچہ والدین کی توقعات پر
پورااترنے کے لیے اپنا پورازور لگاتاہے اور اس راستے میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ
کو وہ نہیں مانتا ۔ یہی رویہ عدم برداشت کی بنیاد بنتا ہے۔
(7)عدم برداشت کو پروان چڑھایا گیا
عدم برداشت کاجو رویہ آج ہم دیکھ رہے ہیں یہ
راتوں رات نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے کئی دہائیاں ہیں۔نہ معلوم وہ کون سا موڑ تھا
جب ہم اپنی سمت کھوبیٹھے اور آہستہ آہستہ یہ بیماری ہمارے اندرمضبوط ہوتی
گئی۔غربت ، بے روزگاری ، بھوک اور محرومی توعدم برداشت کی وجوہات ہیں ہی لیکن اس
کے ساتھ ساتھ ایک بڑا عامل ٹیکنالوجی بھی ہے جس کے ذریعے عدم برداشت پرباقاعدہ
انویسٹمنٹ کی گئی۔آج آپ کو بچوں کی کئی ساری گیمز ایسی ملیں گی جن میں بچے پولیس
کے بجائے چور بننا زیادہ پسند کرتے ہیں ، کیوں کہ اس گیم میںچورکے پاس جدید اسلحہ
ہوتاہے ، وہ قانون توڑتاہے اور ایک طرح سے طاقتورہوتاہے،اس سے انسپائریشن لے کرآج
کی نسل بھی طاقتور بننا چاہتی ہے لیکن جب زمینی حقائق ان کے سامنے رکاوٹ بنتے
ہیںتو پھر وہ عدم برداشت پر اترآتے ہیں۔
(8)اساتذہ طلبہ کو Ownکریں
استاد اور طالب علم کا رشتہ بڑا مقدس ہے۔اس رشتے
کی مضبوطی میںاحساس اور پرخلوص محبت بہت بڑا کردار اداکرتی ہے۔آج کے اساتذہ اگر
اپنے طلبہ کوOwnکریں،انھیں اپنے قریب
رکھیں تو وہ بگڑیں گے نہیں اور استاد کی بات بھی ضرور مانیں گے۔ہر استاد کو اپنے
شاگرد کا نام آنا چاہیے ، یہ عادت ان کی نفسیات پر اچھا اثرچھوڑتی ہے۔اسی طرح
استاد کوچاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کو یہ احساس دلائیں کہ آپ میرے نزدیک سب سے
زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔جب استاد اور والدین کی گرِپ بچوں پر مضبوط ہوگی تو وہ کبھی
بھی بری عادات یاعدم برداشت کا شکار نہیں ہوں گے۔
(9)اسلام سے دوری
بدقسمتی سے ہم نے اسلام کو صرف قصے کہانی کے طور
پر پڑھا ہے، اس کو عملی زندگی میں نہیں ڈھالا۔ہم نے حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں
پڑھا کہ وہ اپنے کندھوں پر غلہ رکھ کر غریبوں کے گھر چھوڑکر آتے تھے لیکن سوال یہ
ہے کہ آج کا کون سا استاد ،سیاسی لیڈر اور عام فردایسا ہے جو اس مثال پر
پورااترتاہو؟بحیثیت استاد اگر رات کے بارہ بجے ہمیں اپنے کسی طالبعلم کا فون
آجائے جو ہماری مدد کا طلب گار ہو توکون سااستاد ایسا ہے جو واقعی میں اس کی مدد
کرنے کے لیے نکلے اور اس کا مسئلہ حل کرے!!جب تک ہم اسلام کے اصول اور بڑی شخصیات
کے واقعات کو عملی طورپر اپنی زندگی میں نہیں لاتے ،ہم ایک مثالی قوم نہیں بن
سکتے۔
(10)خود سے زیادہ دوسروں کی اصلاح
معاشرے میں ایک چیز یہ بھی ہے کہ یہاں ہر شخص اپنے سے زیادہ دوسروں
کی اصلاح کی فکر میں ہوتاہے۔ہم اپنی ذات بدلنے کے بجائے دوسروں کو بدلنا چاہتے
ہیں۔ہر فرقہ ، مسلک اور جماعت زمانے میں انقلاب لاناچاہتی ہے۔جب انسان کی سوچ یہ
ہو تو پھر اس کی نظر دوسروں کی خوبیوں پر نہیں خامیوں پر ہوتی ہے۔ایسے میں اگر
کوئی شخص اس کی بات تسلیم نہ کرے تو پھر وہ اس کو اپنی توہین سمجھتا ہے اور عدم
برداشت پر اترآتاہے۔ہر انسان کو اس کی سوچ اور عقیدے کے مطابق رہنے دینا چاہیے ۔
ہم صرف اپنا پیغام اور موقف دوسروں کو بتائیں ، ان کی زندگی بدلنے کی کوشش نہ کریں
۔قرآن میں اللہ تعالیٰ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں جس کا مفہوم
یہ ہے کہ اے نبی ! آپ کاکام صرف پیغام پہنچانا ہے لوگوں کو بدلنا نہیں کیوں کہ
دلوں کا بدلنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
قاسم علی شاہ
0 تعليقات