Ticker

recent/post/

Header Ads Widget

آیئن ،حکومت پاکستان اور عوام

 

ayoun4u.ayoun Mardan
آئین کیا کہتا ہے ؟نگران حکومت کب بنے گا ؟؟عمران خان کب تک وزیراعظم رہے گا ؟؟؟         موجودہ حالات میں قومی اسمبلی کی تحلیل اتنی بری بھی نہیں مگر یہ ایک ھفتہ پہلے ہونا چاہیئے تھا۔ آج کے اقدام کا ٹائمنگ اور طریقہ کار غلط تھا جس سے وزیراعظم کی امیج خراب ہوگئی۔انہوں نے کہا تھا آخری گیند تک کھیلوگا مگر جب تحریکِ عدم اعتماد پیش ہوئی تو اس پر ووٹنگ کروانے کے بجائے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے اسے غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا۔

اس کے فوراً بعد وزیرِ اعظم نے صدرِ پاکستان سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی جنھوں نے اس بارے میں حکم نامہ جاری کر دیا۔پاکستانی آئین کے تحت ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کو تحلیل نہیں کیا جاسکتا 

جبکہ قومی اسمبلی آئین کی شق 58 کے تحت تحلیل کی جا سکتی ہے۔آئین میں اٹھارہویں ترمیم سے قبل صدرِ مملکت براہِ راست ایسا کر سکتے تھے تاہم اب ایسا صرف وزیرِ اعظم کے مشورے پر ہو سکتا ہے۔نگران حکومت کا قیام آئین کی شق 224 کے تحت عمل میں آتا ہے جس کی ذیلی شقوں کے مطابق اگر شق 58 کے تحت اسمبلی تحلیل ہو جائے، تو صدرِ مملکت وزیرِ اعظم اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیرِ اعظم تعینات کریں گے۔

تاہم یہ تعیناتی صدرِ مملکت کا اختیار نہیں بلکہ یہ قائدِ حزبِ اختلاف اور وزیرِ اعظم کے اتفاق کے بعد عمل میں آتی ہے۔

اسمبلی تحلیل تو وزیرِ اعظم کون؟

حالانکہ اس وقت قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے لیکن وزیرِ اعظم اب بھی اپنے عہدے پر موجود ہیں اور اگلے چند روز تک وہ وزیرِ اعظم رہیں گے۔وہ کم از کم اگلے تین دن تک تو وزیرِ اعظم رہیں گے، اور زیادہ سے زیادہ یہ معاملہ آٹھ سے نو دن پر محیط ہو سکتا ہے۔

ماہرِ قانون سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کا اپنا عہدہ تو ابھی موجود ہے جب تک کہ نگران سیٹ اپ نہیں آ جاتا، تاہم اگر سپریم کورٹ یہ کہے کہ سارا عمل ہی غلط ہوا ہے اور معاملات کو وہیں جانا چاہیے جہاں وہ سپیکر کی رولنگ سے قبل تھے تو پھر تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی اور اس کے بعد جو بھی صورتحال ہو گی اس پر دیکھنا ہو گا۔

آئین کی شق 224 کے تحت اگر اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ختم ہونے والی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور وزیرِ اعظم نے باہمی مشاورت سے کسی ایک نام پر متفق ہونا ہوتا ہے۔

اور اس کام کے لیے اُن کے پاس اسمبلی کے تحلیل سے لے کر صرف تین دن کا وقت ہوتا ہے۔

ایک بار ان کے نام پر اتفاق ہو جائے تو صدرِ پاکستان اس نام کی منظوری دیتے ہیں اور جب تک نگران وزیرِ اعظم نہ آ جائے، اس وقت تک عمران خان ہی وزیرِ اعظم رہیں گے۔

وزیرِ اعظم اور اپوزیشن لیڈر اس کمیٹی کے لیے چار چار ارکان نامزد کرتے ہیں اور پھر اس کمیٹی کے سامنے دو نام وزیرِ اعظم تجویز کرتے ہیں اور دو نام اپوزیشن لیڈر تجویز کرتے ہیں۔

پھر کمیٹی کے پاس اس معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے تین دن ہوتے ہیں۔

اور ماہرین کے مطابق، اگر یہ کمیٹی بھی خود تک معاملہ پہنچنے کے تین دن کے اندر تک فیصلہ نہ کر سکے تو پھر یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جاتا ہے جس نے دو دن کے اندر اندر نگران وزیرِ اعظم کے نام کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔

چنانچہ عمران خان اس وقت تو وزیرِ اعظم پاکستان ہیں لیکن ماہرین کہتے ہیں، اگر سپریم کورٹ اتوار کے اقدامات کو غیر آئینی قرار نہیں دیتی تو بھی اب سے لے کر آٹھ یا نو دن کے اندر عمران خان وزیرِ اعظم نہیں رہیں گے اور پاکستان نئے عام انتخابات کے موسم میں چلا جائے گا کیونکہ نگران حکومت کو 90 دن کے اندر انتخابات کروانے ہوں گے۔خوش آئند بات یہ کہ اسٹبلشمنٹ غیر جانبدار ہے البتہ معاملات پر نظر رکھی ہوئی تاکہ کوئی فریق لاء اینڈ آرڈر سیچویشن کو خراب نہ کرے اور آئین کو گھر کی لونڈی نہ بنائے



إرسال تعليق

0 تعليقات